What have we become? Anjum Majeed

ہمارے نبیﷺ نے جب الہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کیئے آواز دی تو لوگوں سے پوچھا کہ اے لوگو!تم نے مجھے کیسا پایا تو سب نے یک زبان ہوکر بولا کپ صادق اور امین۔ یہی سے وہ اصول قائم ہوگیا کہ ہمارے لیئے پہلی سُنت سچائی اور ایمانداری بن گئی۔ اسی پر علامہ اقبال نے کہا کہ
سبق پڑھ پھر صداقت کا،امانت کا،شجاعت کا
لیا جائے گا کام تجھ سے دنیا کی امامت کا
مگر آج یہ قوم سچائی اور ایمانداری کے لحاظ سے دنیا میں نچلے نمبروں پر چلی گئی؟؟؟ جھوٹ، منافقت اور بے ایمانی ہماری زندگیوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے؟؟؟جنگِ بدر میں زخمیوں کو پانی پلاتے تو ہر کوئی کہتا میں کچھ بہتر ہوں میرے دوسرے بھائی کو پانی پلاو مگر آج کا مسلمان دوسروں کے حقوق سلب کرکے بیٹھا ہے؟؟؟ معاشرے میں مذہبی ۔معاشرتی اور معاشی تقسیم نے پاکستان کو ہر لحاظ سے بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔اللہ نے تو قرآن میں کہا کہ ِاللہ کی رسی(قرآن)کو مضبوطی سے تھام رکھو اور تفرقہ نہ کرو۔، مگر آج کا مسلمان سُنی ہے،شیعہ ہے، وہابی ہے یا پھر اہلحدیث، پھر ہر فرقے کی مزید شاخیں مگر آپ کو مسلمان جو قرآن اور سیرت نبویﷺ کی تقلید کرے کہی نہیں ملتا یا پھر آٹے میں نمک کے برابر ہیں ایسے لوگ۔ معاشرتی طور پر ہم ذات پات کے ہندووانہ چکر میں جھکڑے ہوئے ہیں۔ ہم گجر ہیں،جٹ ہیں ،بٹ ہیں، ملک،شاہ،لوہار،ترکھان،کمہار،نائی،موچی،رامے،چھٹے،چیمے،ڈار،میر راٹھور ہیں مگر ایک قوم نہ بن سکےحالانکہ قرآن کے نزدیک ِ سب انسان واجب الحترام ہیں، ۔ مگر کیا یہ ذات پات کا نظام پاکستان میں ایک دوسرے کی عزت کرنا اور تقویٰ کی بنیاد پر انسانوں کا احترام کرتا ہے؟؟؟؟دنیا میں امریکہ میں رہنے والا امریکی،فرانس میں رہنے والا فرنچ،ناروے میں رہنا والا نارویجن اور اسی طرح باقی مہذب اقوام مگر پاکستان میں رہنے والا پنجابی ہے،سندھی ہے،بلوچی ہے،پختون ہے وغیرہ وغیرہ ؟؟؟ میں نے زندگی میں کہی چوہدری ڈیوڈ،کلنٹن گجرمانٹونی بٹ نہیں دیکھا نہ سنا مگر یہ خرافات پاکستان میں ضرور ہیں؟؟؟ اس ذات پات کے چکر سے نکلنے کیلئے کم از کم بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگوں کے ناموں کے ساتھ ذات برادری کا لکھنا ممنوع قرار دینا چاہیے، کسی سرکاری ملازم کو اپنی ذات برادری ساتھ لکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور جب کوئی انسان کسی ادارے میں جائے تو اس سے اس کی ذات برادری پوچھنے کی سختی سے ممانعت ہونی چاہیے۔ اس طرح کم ازکم ہم ایک قوم بننے کی طرف پہلا قدم ضرور اٹھا سکتے ہیں ورنہ ہزار سال مزید بھی گزر جائیں تو اس غیر انسانی چکر سے نہیں نکل سکیں گے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اصل دین اور اس کا پیغام کہی گُم ہوگیا اور راوایات میں لتھڑی قوم کو میٹھے میں زہر رکھ کر کھلا دیا گیا اور آج ہم اسی کو دین سمجھ کر من و عن تسلیم کرچکے ہیں۔ اللہ نے تو ہمیں غوروفکر کرنے کی ہدایت کی مگر ہم سے کوئی اگر عقل و دانش اور فہم و فراست کی بات کرے تو معاشرہ اسے تسلیم ہی نہیں کرتا؟؟؟ ہم قرآن کی تعلیم پر عمل کرتے تھے تو دنیا میں ہمارا نام تھا اور اب اُس تعلیم کو بھول کر دنیا میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ بقول علامہ اقبال
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور ہم برباد ہوئے تارکِ قرآن ہوکر

Leave a Reply